Baat Saqi Ki Na Tali Jayegi Kar Ke Touba Tod Dali Jayegi
بات ساقی کی نہ ٹالی جائے گی
کر کے توبہ توڑ ڈالی جائے گی
دیکھ لینا وہ نہ خالی جائے گی
آہ جو دل سے نکالی جائے گی
گر یہی طرزِ فغاں ہے عندلیب
تُو بھی گُلشن سے نکالی جائے گی
آتے آتے آئے گا اُن کو خیال
جاتے جاتے بے خیالی جائے گی
کیوں نہیں مِلتی گلے سے تیغِ ناز
عید کیا اب کے بھی خالی جائے گی
دیکھتے ہیں غور سے میری شبیہہ
شاید اس میں جان ڈالی جائے گی
اے تمنا تجھ کو رو لوں شامِ وصل
آج تُو دل سے نکالی جائے گی
قبرمیں بھی ہو گا روشن داغِ دل
چاند پر کیا خاک ڈالی جائے گی
فصل گُل آئی، جنُوں اچھا جلیلؔ
اب طبیعت کیا سنبھالی جائے گی
جلیل مانکپوری
Comments
Post a Comment