Kahein Ko Naaz Adawaan Da Kahein Ko Naaz Wafawaan Da




آج 25 فروری سرائیکی زبان کے ایک عہد ساز شاعر شاکر شجاع آبادی کا یوم ولادت ہے۔
شاکر شجاع آبادی صاحب  کے تعارف سے پہلے لفظ عہد ساز کی کچھ تشریح اور تعریف ضروری ہے  میرے خیال کے مطابق عہد ساز  اس شخصیت کو کہا اور مانا یا تسلیم کیا جاتا ہے کہ اس شخصیت سے ان کے اردگرد کا ماحول اور معاشرہ پوری طرح متاثر ہوتا ہے یعنی وہ ایک متاثر کن خوبیوں کا مالک ہوتا ہے کہ اس کی ہر بات اور ہر عمل سے لوگ متاثر ہوتے ہیں اور ان کا اثر قبول کرتے ہیں ۔ اس خوبی پر شاکر شجاع آبادی پورا اترتے ہیں۔شاکر صاحب کی شاعری اور الفاظ میں اتنا اثر اور اتنی تاثیر ہوتی کہ ان کی آواز اور الفاظ سن کر نہ صرف لوگوں پر وجد طاری ہو جاتا  بلکہ سامعین کی اکثریت بے ساختہ رونے لگ جاتی
شاکر شجاع آبادی پاکستان سے تعلق رکھنے والے سرائیکی زبان کے مشہور اور ہر دل عزیز شاعر ہیں۔ جسے سرائیکی زبان کا شیکسپیئر اور انقلابی شاعر کہا جاتا ہے۔ان کا اصل نام محمد شفیع ہے اور تخلص شاکرؔ ہے، شجاع آباد کی نسبت سے شاکر شجاع آبادی مشہور ہے۔
شاکر شجاع آبادی کی پیدائش 25 فروری 1968ء کوشجاع آباد کے ایک چھوٹے سے گاوٗں راجہ رام میں ہوئی جو ملتان سے ستر 70 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ۔ 2004ء تک بول سکتے تھے، اس کے بعد فالج کا حملہ ہوا جس کے باعث درست طور پر بولنے سے قاصر ہیں اور ان کا بیٹا نوید شاکر اور ولید شاکر  ان کی ترجمانی کرتے ہیں۔۔
حکومت پاکستان کی طرف سے اعلیٰ کارکردگی کی وجہ سے 14 اگست 2006ء میں انہیں صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی ملا۔
شاکر شجاع آبادی، جنہیں نظرانداز کردیا گیا۔ان کی شاعری روح کو بے قرار کردیتی تھی اور ان کا نام ایک بڑے ہجوم کو مشاعروں میں کھینچ لاتا ۔ اگرچہ وہ بولنے اور چلنے پھرنے میں معذوری کا شکار ہیں، مگر ایک وقت وہ تھا کہ ان کے ہر ایک مصرع پر حاضرین جوش میں آجاتے تھے اور تالیاں بجا کر ان کی تعریف کرتے تھے۔
شعرو شاعری کے چوبیس برسوں کے دوران شاکر نے ہزاروں دوہرے، قطعے، گیت اور غزلیں لکھیں۔ان کی مقبولیت کے بڑھتے ہوئے گراف کے ساتھ ہی ان کی کتابوں کی فروخت میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔ پبلشروں نے ان کی ایک درجن سے زیادہ کتابیں شایع کیں، لیکن شاذونادر ہی انہیں رائیلٹی کی ادائیگی کی گئی۔ان کی مقبول کتابوں میں لہو دا عرق، پیلے پتر، بلدین ہنجو، منافقاں تو خدا بچاوے، روسیں تو ڈھاڑیں مار مار کے اور گلاب سارے تمہیں مبارک شامل ہیں۔
شاکر شجاع آبادی کی تعلیم پرائمری ہے لیکن ان کا کلام اس وقت پانچ یونیورسٹیوں میں پڑھایا جا رہا ہے۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور
بہاءالدین یونیورسٹی ملتان ۔ایگری کلچرل یونیورسٹی فیصل آباد ۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد۔
منتخب سرائیکی زبان کے اشعار ملاحظہ فرمائیں
کہیں کو ناز اداواں دا
کہیں کو ناز وفاواں دا
اساں پیلے پتر درختاں دے
ساکو رہیندے خوف ہواواں دا
(یعنی کہ کچھ اپنے انداز کا لطف لیتے ہیں، کچھ کو اپنی وفاداری پر فخر ہوتا ہے، ہم درختوں کے زرد پتے ہیں، ہم ہمیشہ ہواؤں سے خوفزدہ رہتے ہیں۔)
ساری زندگی نفرت کیتی ہم ہنڑ الفت نال نبھا ڈیکھاں
میں ہر ھک سجنڑ کُوں ڈیکھ گِدا اے ہنڑ دشمنڑ کُوں بنڑا ڈیکھاں
جے کُو یار بنڑایا او چھوڑ گیا اے نسخہ ول آزما ڈیکھاں
متاں دکھ وی شاکر چھوڑ ونجے دکھ نال ہنڑ یاری لا ڈیکھاں
میڈے "شاکر" گناہ هن گردن تائیں،
معصوم وی میں بدنام وی میں.
اج موسم ھے تیڈی یادیں دا
میکوں بھاندا پئے اج ھوویں ہا
ھے یار ہوا اج جھمریں وچ
جھڑ گاندا پئے اج ھوویں ہا
ترِم چھت پووے متاں پلکیں دی
ڈر کھاندا پئے اج ھوویں ہا
میڈے شہر اچ شاکر مونجھیں دا
مینہہ آندا پئے اج هوویں ہا

No comments:

Post a Comment

Featured post

Main tumko bhool jaonga lekin yeh shart hai Gulshan mein chal ke phool se khushbo juda karo

Main tumko bhool jaonga lekin yeh shart hai Gulshan mein chal ke phool se khushbo juda karo