Yaqeen Jano Keh Hum Sab Ajnabi Thay
یقیں جانو
کہ ہم سب اجنبی تھے
اور وہ سب خواب تھا کوئی
جہاں ہم دور تک پھیلی فضاؤں میں
سُنہرے بادلوں کے سنگ اُڑا کرتے تھے
اور اتنی بلندی سے نگر، دریا، سمندر دیکھ کر مُسکایا کرتے تھے
گلابوں کو کتابوں میں
سجیلے شوخ لفظوں کو
حجابوں میں
سجا کے پیش کرتے تھے
صداؤں میں کھنکتے قہقہوں کا رنگ بھرتے تھے
ہواؤں میں لبوں کے ان کہے گیتوں کی تحریریں رچاتے تھے
بھرے مجمعے میں کاغذ کے جہازوں کو اڑا کے لطف لیتے تھے
یا خالی کشتیوں کو دیکھ کر
دل کے نگر انگڑائیاں لیتی ہوئی کچھ خوبصورت خواہشوں کو
چُوم کے سمجھا لیا کرتے تھے جلدی سے
یقیں جانو
وہ سب اک خواب تھا
ورنہ تو ہم اڑتے پرندوں کے پروں پر تھے
ہمارے پاؤں کے نیچے ہمارا اپنا اپنا اک پرندہ تھا
کہ جس کے ہاتھ میں سمتوں، اُڑانوں، دائروں اور منزلوں کا ہر ارادہ تھا
یا پھر شاید یہاں ہم لمحہ لمحہ اک کہانی ٹاپتی بے مہر لہروں کے سموں کی ٹاپ پر تھے
اور ہمیں بس اپنی اپنی داستانوں کو سمیٹے فاصلوں کی آبشاروں میں
یک و تنہا ہی بہنا تھا
دلوں پہ ہجر سہنا تھا
کسی سے کچھ نہ کہنا تھا
یقیں جانو
یقیں جانو
وہ سب اک خواب تھا کوئی
فرحت عباس شاہ
Comments
Post a Comment