Abhi Zid Na Kar , Dil Be-Khabar Keh Pas Hujoom Sitam Garan
ابھی ضد نہ کر، دل بے خبر
کہ پس ہجوم ستم گراں
ابھی کون تجھ سے وفا کرے؟
ابھی کس کو فرصتیں اس قدر
کہ سمیٹ کر تیری کرچیاں
تیرے حق میں خدا سے دعا کرے
ابھی ضد نہ کر دل بے خبر
کہ تہ غبار غم جہاں
کہاں کھو گئے تیرے چارہ گر
کہ راہ حیات میں رائیگاں
کہاں سو گئے تیرے ہمسفر
ابھی غمگساروں کی چوٹ سہہ
ابھی کچھ نہ سن ابھی کچھ نہ کہہ
ابھی ضد نہ کر میرے بے نواء
ابھی ہو سکے تو سخی میرے
سب ہی خواب راکھ میں دفن کر
ابھی ہو سکے تو یہ سوچ لے
کہ طلوع اشک سے پیشتر
کہیں درد ہے تو ہوا کرے
کوئی چوٹ ہے تو کھلا کرے
کبھی یوں بھی ہو کہ سر افق
تیرے دکھ کا چاند دمک اٹھے
کوئی ٹیس خود سے چمک اٹھے
کسی شہر زخم فروش میں
کوئی زخم خود سے خرید کر
سبھی عکس خُود سے کُھرچ کبھی
کسی آئینے پہ نہ دید کر
کبھی یوں بھی جشن طرب منا
کبھی اس طرح سے بھی "عید" کر
(شاعر "محسن نقوی" کی شاعری کی کتاب "رخت شب" سے)
Comments
Post a Comment