Kamre Mein Duwan Dard Ki Pehchan Bana Tha Kal Raat Koi Phir Mera Mehman Bana Tha
کمرے میں دھواں درد کی پہچان بنا تھا
کل رات کوئی پھر مرا مہمان بنا تھا
بستر میں چلی آئیں مچلتی ہوئی کرنیں
آغوش میں تکیہ تھا سو انجان بنا تھا
وہ میں تھا مرا سایہ تھا یا سائے کا سایہ
آئینہ مقابل تھا میں حیران بنا تھا
نظروں سے چراتا رہا جسموں کی حلاوت
سنتے ہیں کوئی صاحب ایمان بنا تھا
ندی میں چھپا چاند تھا ساحل پہ خموشی
ہر رنگ لہو رنگ کا زندان بنا تھا
حرفوں کا بنا تھا کہ معانی کا خزینہ
ہر شعر مرا بحث کا عنوان بنا تھا۔
ابرار اعظمی
Comments
Post a Comment