پھولوں کو جو گلزار میں دیکھا ہے ٹھہر کے
چھالے نظر آنے لگے اپنے ہی جگر کے
یہ ظلمت ء شب ہاۓ ستم دیکھ گھٹے گی
ہیں دور اگرچے ابھی آثار سحر کے
بچوں کو گنوایا تو کہیں کنبہ لٹایا
اک خون کا دریا تھا جو بہتا تھا بپھر کے
سورج سے اجالے کے طلب گار ہیں ہم لوگ
کل ہم نے بجھاۓ تھے چراغ اپنے ہی گھر کے
وہ دور سدا منزل مقصد سے رہے گا
آتے نہیں جس شخصکو آداب سفر کے
غیروں سے کوئ شکوہ شکایت نہیں ہے میر
اپنوں نے ہی چھوڑا ہے ہمیں بیچ بھنور کے
No comments:
Post a Comment