Daikhna Bhi Tou Unhein Door Se Daikha Karna Shewah e Ishq Nahi Husn Ko Ruswa Karna
دیکھنا بھی تو انہیں دور سے دیکھا کرنا
شیوۂ عشق نہیں حسن کو رسوا کرنا
اک نظر بھی تری کافی تھی پئے راحت جاں
کچھ بھی دشوار نہ تھا مجھ کو شکیبا کرنا
ان کو یاں وعدے پہ آ لینے دے اے ابر بہار
جس قدر چاہنا پھر بعد میں برسا کرنا
شام ہو یا کہ سحر یاد انہیں کی رکھنی
دن ہو یا رات ہمیں ذکر انہیں کا کرنا
صوم زاہد کو مبارک رہے عابد کو صلوٰۃ
عاصیوں کو تری رحمت پہ بھروسا کرنا
عاشقو حسن جفاکار کا شکوہ ہے گناہ
تم خبردار خبردار نہ ایسا کرنا
کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کیا ہے حسرتؔ
ان سے مل کر بھی نہ اظہار تمنا کرنا
حسرتؔ موہانی
Comments
Post a Comment