Ajeeb Shehar Mein Tere Faraib-Kari Hai Shikaar Kon Hai Gar Har Koi Shikari Hai
عجیب شہر میں تیرے فریب کاری ہے
شکار کون ہے گر ہر کوئی شکاری ہے؟
وہ کس کے سامنے دامن کو اپنے پھیلائے
نظر جدھر بھی اٹھائے ادھر بھکاری ہے
خدا کے واسطے ترتیب نا بگاڑ مری
غموں کے بعد قرینے سے یہ سنواری ہے
فریب ایسا مجھے دے نہ ہو دیا پہلے
مرے تو سامنے یہ زندگی تمہاری ہے
مری تو آستیں میں آگیا ہے چپکے سے
ڈراتا کس کو ہے خالی تری پٹاری ہے
طویل ایسی کوئی شب نہیں رہی اب تک
ترے بغیر جو آنکھوں میں یہ گزاری ہے
کھلے گی اس پہ حقیقت کبھی تو غفلت کی
ابھی تو عشرتِ دنیا کی اک خماری ہے
نہ جانے کتنے شجر منتظر تھے پتھر کے
ہر ایک گھر میں بیٹھی یہاں دلاری ہے
میرا تو سایہ بھی اپنا رفیقِ کار نہیں
تو خوش نصیب یاں ہر اک ترا حواری ہے
دو لخت کر دیا یہ دل ہمارا سینے میں
ہر ایک لفظ ترا محسنا دو دھاری ہے
حریف کو بھی ملا ہوں سہیل عزت سے
مرے خمیر میں یہ ایک وضع داری ہے
خرم سہیل
Khurram Suhail
٨ مارچ ٢٠٢٣
Comments
Post a Comment