Ishq Ki Rah Mein Hum Ashk Bahate Hi Chaly Garche Pocha Na Gaya Dard Dekhate Hi Chaly
عشق کی راہ میں ہم اشک بہاتے ہی چلے
گرچہ پوچھا نہ گیا درد دکھاتے ہی چلے
وسعتِ شہر بڑھی تب سے اجالے سمٹے
خود کو جگنو سا مگر ہم تو جگاتے ہی چلے
ڈال دی غیر کے سر اوڑھنی حصے کی مرے
عصمتِ غیر سہی، اس کو بچاتے ہی چلے
لوٹ آئیں نہ کہیں خواب میں تیری یادیں
رات یہ ہجر کی یوں جاگ کے کاٹے ہی چلے
کون جانے کہ یہ حالات بدل جائیں کبھی
اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو مٹاتے ہی چلے
دل کا ویران نگر ہو گا یہ آباد کبھی
ہے دکاں اب بھی کھلی سب کو سناتے ہی چلے
قید میں روح تھی یا جسم قفس میں میرا
حل نہ ہو گی یہ پہیلی گو بتاتے ہی چلے
اب گزاریں گے اسے ایک نئے ڈھنگ سے ہم
نغمہِ زیست کو اک راگ پے گاتے ہی چلے
زندگی روٹھ گئی خود سے تو کہتے ہیں سہیل
وقتِ پیری ہے، چلو سب کو مناتے ہی چلے
خرم سہیل
Comments
Post a Comment