Us Ne Pur Kaif Isharon Mein Nikali Batein Maiz Par Chaaye Jo Rakhi Tou Uthali Batein
اس نے پُرکیف اشاروں میں نکالی باتیں
میز پر چاۓ جو رکھّی تو اُٹھالی باتیں
ہم فقیروں کو کبھی وجد میں آ لینے دو
پھر سُنو بیٹھ کے پہلو میں دھمالی باتیں
اتنے دن بعد ملے ہیں تو گِلے رہنے دو
آؤ دو چار کریں خیر سگالی باتیں
بات پہلے تو نگاہوں سے شروع کی اس نے
پھر تو ہر انگ سے پُر کیف اُچھالی باتیں
آج کھولا تو زمانے تھے کئی آنکھوں میں
ماں نے صندوق میں کتنی تھی سنبھالی باتیں
ایسے گزری تھیں دسمبر کی وہ راتیں انجم
اوڑھ لیں ہم نے، کبھی نیچے بِچھا لیں باتیں
آصف انجم
Comments
Post a Comment