Jab Bhi Do Aansoo Nikal Kar Reh Gaye Dard Ke Unwan Badal Kar Reh Gaye
جب بھی دو آنسو نکل کر رہ گئے
درد کے عنواں بدل کر رہ گئے
کتنی فریادیں لبوں پر رک گئیں
کتنے اشک آہوں میں ڈھل کر رہ گئے
رخ بدل جاتا مری تقدیر کا
آپ ہی تیور بدل کر رہ گئے
کھل کے رونے کی تمنا تھی ہمیں
ایک دو آنسو نکل کر رہ گئے
زندگی بھر ساتھ دینا تھا جنہیں
دو قدم ہم راہ چل کر رہ گئے
تیرے انداز تبسمؔ کا فسوں
حادثے پہلو بدل کر رہ گئے
صوفی تبسمؔ
Sofi Tabassum
Comments
Post a Comment