میکدہ یہ بند ہو یہ شور و غوغا بند ہو
کہہ دو اب پیرِ مُغاں سے یہ تماشا بند ہو
دُور سے آوازیں دیتی ہے مجھے تیری گلی
یہ نہ ہو میں آنا چاہوں اور رستہ بند ہو
اپنے سر پر عشق میں ہر جُرم کا الزام لے
میرے جیسا شہر میں کوئی تو بستہ بند ہو
ایک ہی صورت میں ہوگی ختم اب یہ بےکلی
تُو نہ یاد آۓ ہمیں یا دِل دھڑکنا بند ہو
ہو چُکی ناکام ارشد ہر تمنّا عشق میں
سلسلہ یہ خواہشوں کا رفتہ رفتہ بند ہو
مرزا ارشد علی بیگ
Mirza Arshad Ali Baig
آڈبان پینسلوانیا
Audubon Pennsylvania
No comments:
Post a Comment