Raat Bhi Kia Kamal Karti Hai Dard Thehre Bahal Karti Hai
رات بھی کیا کمال کرتی ہے
درد ٹھہرے بحال کرتی ہے
ہجر میں دن گزر ہی جاتا ہے
رات جینا محال کرتی ہے
آنکھ بہتی ہے تو نہیں رکتی
دیکھ کتنا ملال کرتی ہے
اور تو کچھ گلہ نہیں تجھ سے
یاد تیری نڈھال کرتی ہے
اوڑھ کر شال پھر اداسی کی
شام مجھ میں دھمال کرتی ہے
کیا کہوں، اک ذرا سی رنجش کیوں
قربتیں پائمال کرتی ہے
روبرو یار ہو پلک جھپکے
آنکھ کب یہ مجال کرتی ہے
روند ڈالا مجھے بتا کیونکر
زیست مجھ سے سوال کرتی ہے
شاعری روگ تو ہے پر صحرا
شخص کو لازوال کرتی ہے
ساحرہ نقوی صحرا
Comments
Post a Comment