Buhat Dinon Se Koi Yun Khaincha Saa Hai Kabhi Hai Ajnabi Hum Se Kabhi Shanasa Hai
بہت دنوں سے کوئی یُوں کِھنچا کِھنچا سا ہے
کبھی ہے اجنبی ہم سے کبھی شناسا ہے
میں اُسکو دیکھ تو سکتا ہوں چُھو نہیں سکتا
قریب آ کے بھی دریا کے کوئی پیاسا ہے
قباحتیں ہیں محبّت میں اسقدر حائل
قدم بڑھاتا ہے لیکن رُکا رُکا سا ہے
ہزاروں میل کی ہیں دُوریاں مگر جاناں
کریں جو پیار تو یہ فاصلہ ذرا سا ہے
شبِ فراق یہ پیکر ہے یا تیرا سایہ
نظر اُداس ہے چہرہ بُجھا بُجھا سا ہے
تقاضا عمر کا ہے یا گُمانِ ناکامی
سفر طویل ہے رہرو تھکا تھکا سا ہے
سراپا یار کا پُوچھا تو کہہ دیا ارشد
بہت حسِین ہے وہ نام بھی بَھلا سا ہے
مرزا ارشد علی بیگ
Mirza Arshad Ali Baig
آڈبان پینسلوانیا
Audubon Pennsylvania
Comments
Post a Comment