Darta Hoon Raaz e Dil Jo Kabhi Aashkar Ho Sun Kar Na Chasham e Dost Kahein Ashkbar Ho
ڈرتا ہوں رازِ دل جو کبھی آشکار ہو
سُن کر نہ چشمِ دوست کہیں اشکبار ہو
اکثر اِسی خیال سے جاگا ہوں نیند میں
شاید کہ اُس کو اب بھی میرا انتظار ہو
میں بھی یہ چاہتا ہوں بتا دے مجھے کبھی
مجھ سے زیادہ اور تُجھے جس سے پیار ہو
قائم تو آج بھی ہے یہ منصور کی روش
حق کی کرے جو بات وہی سنگ سار ہو
سورج نے مانگ لی ہے ترے حُسن سے ضیا
یہ چاند بھی نہ روشنی کا قرض دار ہو
زادِ سفر تو کچھ بھی نہیں ہے ہمارے پاس
یہ ہی بہت ہے تجھ کو میرا اعتبار ہو
ارشد غزل کہی ہے یا موتی پِرو دیئے
اُُترا فلَک سے جیسے ستاروں کا ہار ہو
مرزا ارشد علی بیگ
Mirza Arshad Ali Baig
آڈبان پینسلوانیا
Audubon Pennsylvania
Comments
Post a Comment