Woh Gul Hai Rang Hai Jis Mein Teri Khushbo Nahi Aaye Nahi Woh Chandni Chan Se Utar Kar Tu Nahi Aaye
وہ گُل بے رنگ ہے جس میں تری خوشبو نہیں آئے
نہیں وہ چاندنی چَھن سے اُتر کر تُو نہیں آئے
اندھیری رات ہے تنہا بھٹکتا ہوں میں گُلشن میں
دِکھانے راستہ مُجھ کو میرے جُگنو نہیں آئے
نجانے کِتنے دیوانے مجسّم ہو گئے پتّھر
تِری نگری نہ جائے وہ جِسے جادو نہیں آئے
اشاروں سے سمجھ لیتے ہیں اپنے دل کی سب باتیں
مُجھے لاطِن نہیں آتی اُسے اردو نہیں آئے
اگرچہ داد تُو نہ دے مُجھے ضبطِ غمِ دل کی
مگر مت پُوچھ یہ مُجھ سے کہ کیوں آنسو نہیں آئے
جُھکا لیں گے نگاہوں کو نظر آئے جو محفل میں
وہاں کیا کیجئیے گا دل اگر قابُو نہیں آئے
تصوّر میں اُسے لا کر شب فُرقت گِنوں تارے
قرار اس دل کو جب ارشد کسی پہلُو نہیں آئے
مرزا ارشد علی بیگ
Mirza Arshad Ali Baig
آڈبان پینسلوانیا
Audubon Pennsylvania
Comments
Post a Comment