Be-Noor Thay Ujaly Dar Tha Na Dar Peh Taly Ishq Nabi Se Pehly Kon o Makan Mein Kia Tha
بے نور تھے اجالے، در تھا، نہ در پہ تالے، عشقِ نبی سے پہلے کون و مکاں میں کیا تھا
جنگل، پہاڑ ،دریا، سب بعد کا ہیں قصہ، کیا تھا بھلا زمیں پر اس آسماں میں کیا تھا
تاریکیوں میں جیسے شمعوں کے بھی پڑاٶ کچھ روشنی کے دیپک، کچھ تیرگی کے گھاٶ
مہتاب توڑتے ہیں، سورج کو موڑتے ہیں، ان کو پتہ ہے سب کچھ، اس کہکشاں میں کیا تھا
عالم تھا کرب والا، ہر سمت تھی اداسی، دِکھتا نہ تھا کنارہ، پھیلی تھی بدحواسی
پڑھ کر درود آیا ہر لطف زندگی کا صلِ علی سے پہلے مجھ نیم جاں میں کیا تھا
بس نام کا تھا حاتم مشہور جو ہوا بھی ورنہ کریم ہے وہ جو مائل عطا ہے
جس نے دلوں کی بوجھی، کر دی مراد پوری، جو تھا جدا سبھی سے، اس مہرباں میں کیا تھا
چمکے نصیب اس کے جس راہ سے وہ گزرے، گلیاں تھیں کیسی گلیاں، رستے تھے کیسے رستے
میں سوچتا ہوں اب بھی، کیسا تھا وہ زمانہ، ان کی گلی میں تھا کیا، ان کے مکاں میں کیا تھا
اس زندگی کا مقصد ان کی ہی مدحتیں ہیں، ان کی ہی مدحتیں ہیں جس میں سب عظمتیں ہیں
اعجاز ہے انہی کا یہ حرف و لفظ و مدحت کیا تھی زبان ﻣیری، میرے بیاں میں کیا تھا
علی اعجاز تمیمی
Ali Ijaz Tamimi
Comments
Post a Comment