Jo Sham e Hijar Hoa Dard Ki Thami Hogi Teri Udas See Aankhon Mein Kuch Nami Hogi
جو شامِ ہجر ہوا درد کی تھمی ہو گی
تری اُداس سی آنکھوں میں کُچھ نمی ہو گی
کبھی دوپٹّے کے پلُو سے صاف کر لینا
جو گَرد کُچھ میری تصویر پر جَمی ہو گی
یُوں آئیں گے تو بہت لوگ تیرے جیون میں
مگر یہ سچ ہے ہمیشہ میری کمی ہو گی
گِرا دے خار سمجھ کر مجھے تُو دامن سے
شگفتگی تیرے پھولوں کی موسَمی ہو گی
بڑھایا اُس نے تعلق جو غیر سے ارشد
ضرور میری محبّت میں کُچھ کمی ہو گی
مرزا ارشد علی بیگ
Mirza Arshad Ali Baig
آڈبان پینسلوانیا
Audoban Pynsalvania
Comments
Post a Comment