Khushi Hai Dil Mein , Na Dukh Ka Matam , Mizaj Itna Ajeeb Sa Hai Koi Moatabar Bataye Mujh Ko Yeh Khuwab Mera Ajeeb Saq Hai
خوشی ہے دل میں، نہ دکھ کا ماتم، مزاج اتنا عجیب سا ہے
کوئی معتبر بتاۓ مجھ کو یہ خواب میرا عجیب سا ہے
لبوں پہ فردا کی گفتگو تھی نئے دیاروں کی آرزو تھی
تمہیں ستاروں کی جستجو تھی، تمہارا رکنا عجیب سا ہے
اداس مصرع کسی غزل کا، وہ جان شبنم کی، دل کنول کا
ستم تو یہ اس پہ ہلکا ہلکا ہمارے جیسا عجیب سا ہے
ہجومِ یاراں کہیں نہیں تھا بس ایک تنہا دلِ حزیں تھا
سبھی کے دعووں پہ آفریں تھا، یقین اٹھنا عجیب سا ہے
کنارِ بحرِ بقا نہیں ہے کوئی تلاطم فنا نہیں ہے
مقام کوئی جدا نہیں ہے تو ناٶ چلنا عجیب سا ہے
یہ موت، یہ زندگی کا چکر، دریچے در اور فصیل ِ محشر
خدا ہی بس جانتا ہے بہتر، یہ کھیل سارا عجیب سا ہے
نہیں کوئی بے رخی نہیں تھی، ابھی کہانی بڑی حسیں تھی
ابھی تو ہر بات دلنشیں تھی، دلوں کا بجھنا عجیب سا ہے
ابھی تو دل کے معاملے تھے نہ بیوفائی، نہ حادثے تھے
وہ بے سبب ہی چلے گئے تھے، یہ ہجر کیسا عجیب سا ہے
سبھی ہیں بے رنگ سے نظارے، یہ جھیل، جھرنے، یہ چاند تارے
اجڑ چکے ہیں جو باغ سارے گلاب کھلنا عجیب سا ہے
تمہارے جانے سے کھو گیا ہوں، تمام لمحوں کو رو گیا ہوں
تمہارے بن ایسے ہو گیا ہوں کہ اب تو ہونا عجیب سا ہے
کہاں ہیں اعجاز وہ زمانے، وہ سکھ، وہ رونق، وہ گیت گانے
کہاں ہیں احباب وہ پرانے دیار اپنا عجیب سا ہے
علی اعجاز تمیمی
Comments
Post a Comment