Main Mar Mita Tou Woh Samjha Yeh Inteha Thi Meri Usay Khabar Hi Na Thi Khak Camya Thi Meri
میں مر مٹا تو وہ سمجھا یہ انتہا تھی میری
اسے خبر ہی نہ تھی، خاک کیمیا تھی میری
میں چپ ہوا تو وہ سمجھا کہ بات ختم ہوئی
پھر اس کے بعد تو آواز جا بجا تھی میری
میں اس کو یاد کروں بھی تو یاد آتا نہیں
میں اس کو بھول گیا ہوں، یہی سزا تھی میری
شکست دے گیا اپنا غرور ہی اس کو
وگرنہ اس کے مقابل بساط کیا تھی میری
کہیں دماغ، کہیں دل کہیں بدن ہی بدن
ہر اک سے دوستی یاری جدا جدا تھی میری
کوئی بھی کوئے محبت سے پھر نہیں گزرا
تو شہرِ عشق میں کیا آخری صدا تھی میری
جو اب گھمنڈ سے سر کو اٹھائے پھرتا ہے
اسی طرح کی تو مخلوق خاکِ پا تھی میری
ہر ایک شعر نہ تھا در خورِ قصیدۂ دوست
اور اس سے طبعِ رواں خوب آشنا تھی میری
میں اس کو دیکھتا رہتا تھا حیرتوں سے فرازؔ
یہ زندگی سے تعارف کی ابتدا تھی میری
احمد فرازؔ
Comments
Post a Comment