Sisakti Zeest Ka Maheeb Khuwab Baqi Hai Guzarte Lamhon Ka Peeham Azab Baqi Hai
سِسکتی زیست کا مہیب خواب باقی ہے
گُزرتے لمحوں کا پیہم عذاب باقی ہے
جُنونِ عشق تو قابو میں کر لیا لیکن
لگی ہے دل میں کَسک اضطراب باقی ہے
سوانح پڑھ کے میری مُسکرا رہے ہیں آپ
ابھی نہ خُوش ہوں بہت یہ کتاب باقی ہے
خیال اُس کا مُعمّہ ہے حل نہیں ہوتا
وہ اک سوال ہے جس کا جواب باقی ہے
بہت سے روپ میں طاغوت ہے سِنگھاسن پر
کئی بُتوں کا یہاں احتساب باقی ہے
مُجھے نکال نہ میخانے سے ابھی ساقی
مرے پِیالے میں تھوڑی شراب باقی ہے
یقیں ہے آئے گا وہ یومِ حشر بھی ارشد
بہت سے جُرموں کا پہلے حساب باقی ہے
مرزا ارشد علی بیگ
Mirza Arshad Ali Baig
آڈبان پینسلوانیا
Audoban Pynsalvania
Comments
Post a Comment