Wehshat Rahi Kabhi Tou Kabhi Justjo Rahi Yeh Kashmakash See Kaifiyat Tou Ko Ba Ko Rahi
وحشت رہی کبھی تو کبھی جُستجو رہی
یہ کشمکش سی کیفیت تو کُو بہ کُو رہی
گردش میں تھی خبر، وہ نہ آئیں گے لوٹ کر
ہم کو پتہ چلا نہ خبر چار سُو رہی
جس پل کیا تھا اُس نے جُدا اپنا راستہ
اُس پل کے بعد پھر نہ کوئی آرزو رہی
یہ ضعفِ تخّیل ہے یا پھر کوئی واہمہ
وہ ہو نہ ہو سدا وہ مگر رُوبرو رہی
بس ایک چیز تھی جو نہ بس میں کبھی رہی
ہر گفتگو میں کیا کروں وہ ماہ رُو رہی
اب بھی وہی طلب ہے کہ اِس سچ کے باوجود
نہ ہم جواں رہے نہ وہ اب خُوبرو رہی
یادیں مہکنے لگتی ہیں اکثر تنہائی میں
ہمراہ نہ سہی، دل میں رضا مُشکبُو رہی
سید محتشم رضا
Comments
Post a Comment