Humare Seeny Se Garya Ki Ibteda Kar Ke Guzar Gaya Hai Koi Dil Ko Karbala Kar Ke
ہمارے سینے سے گریہ کی ابتدا کر کے
گزر گیا ہے کوئی دل کو کربلا کر کے
عجیب شخص تھا وہ جو اداس ہو کر بھی
خوشی سے جیتا رہا ہے مجھے جدا کر کے
اسی کے واسطے زندہ ہوں جو یہ کہتا ہے
نہیں کیا کوئی احسان سب گنوا کر کے
تمہارے میری طرف ہاتھ بڑھ گئے لیکن
گلے لگایا نہیں تم نے حوصلہ کر کے
نہیں خبر ہے کہ اب خواب کیا، حقیقت کیا
بچھڑنے والے تُو بچھڑا بھی انتہا کر کے
گئے دنوں کی طلب خاک ہوگئی اس دن
زمانے بھول گئے تیرا سامنا کر کے
میں اپنی ہار تھی، اپنی ہی جیت تھی تجدید
سمجھ میں آتی نہیں بات یہ بتا کر کے
تجدید قیصر
Tajdeed Qaisar
Comments
Post a Comment