Khuwahish Wasal Ke Zandan Mein Rakha Hoa Hai Khud Ko Ik Shakhs Ke Imkan Mein Rakha Hoa Hai
خواہش وصل کے زندان میں رکھا ہوا ہے
خود کو اک شخص کے امکان میں رکھا ہوا ہے
حوصلہ پڑتا نہیں کیسے اٹھاؤں اس کو
ہجر کا دکھ بھی تو سامان میں رکھا ہوا ہے
دیکھنے والے بھی حیران ہوئے جاتے ہیں
دل نے ہر زخم نمکدان میں رکھا ہوا ہے
تتلیاں پھول سمجھتے ہوئے آ جاتی ہیں
اس کی تصویر کو گلدان میں رکھا ہوا ہے
اور تو کچھ بھی نہیں اس میں فضیلت ایسی
اک تجسس ہے جو انسان میں رکھا ہوا ہے
دل کی تسکین کو یہ بات بھی کیا کم ہے ایازؔ
اس نے کچھ روز تجھے دھیان میں رکھا ہوا ہے
Comments
Post a Comment