Hasrat Bhi Nahi Dil Mein Tamanna Bhi Nahi Hai Aankhon Mein Naya Ab Koi Sapna Bhi Nahi Hai
حسرت بھی نہیں دل میں تمنا بھی نہیں ہے
آنکھوں میں نیا اب کوئی سپنا بھی نہیں ہے
یہ شوخ تو محبوب ہے ہر جاہ طلب کا
وہ یار ہے جو یار کسی کا بھی نہیں ہے
وہ شخص گریزاں ہے میرے پیار سے اب تک
مِلتا بھی نہیں دل سے نکلتا بھی نہیں ہے
اقرارِ محبّت تھا کہ احسان تھا.اُس کا
اِک بوجھ کہ سینے سے اُترتا بھی نہیں ہے
کُچھ فرق ثقافت کا ہے ہم دونوں کے مابین
اور کچھ وہ میری بات سمجھتا بھی نہیں ہے
جب قُرب تھا احساس نہ تھا وقت کا مجھ کو
اب وقت یُوں ٹہرا ہے گُزرتا بھی نہیں ہے
برسوں کی شناسائی تھی اک چاند سے ارشد
مدت ہوئی آنگن میں اُترتا بھی نہیں ہے
مرزا ارشد علی بیگ
Mirza Arshad Ali Baig
آڈبان پینسلوانیا
Audoban Pynsalvania
Comments
Post a Comment