Lakh Rokon Banon Deewar Chala Jata Hai Jis Ko Main Yar Kahon Yar Chala Jata Hai
لاکھ روکوں، بنوں دیوار، چلا جاتا ہے
جس کو میں یار کہوں، یار چلا جاتا ہے
جس بھی دیوار کو غمخوار سمجھ کر ٹھہرا
اس کا سایہ پسِ دیوار چلا جاتا ہے
فطرتاً تنکا ہوں، بنتا ہوں سہارا جس کا
وہ ڈبو کر مجھے خود پار چلا جاتا ہے
میں تو رکھتا ہوں ہر اک شخص کا پردہ لیکن
میرا قصہ سرِ بازار چلا جاتا ہے
حال جس سے بھی کہا، مشورہ جس سے مانگا
دے کے تازہ ہمیں آزار چلا جاتا ہے
خاک امید کرے کوئی شفایابی کی
جس کا ہوتا ہوں میں بیمار، چلا جاتا ہے
مجھ کو معلوم ہے، یہ خواب نہیں ہے پھر کیوں
آنکھ کھلتے ہی وہ ہر بار چلا جاتا ہے
غم کی تشہیر سے ہم نے یہ سبق پایا ہے
غم وہیں رہتا ہے غمخوار چلا جاتا ہے
اتباف ابرک
Comments
Post a Comment