Waise Tou Kaj Adaai Ka Dukh Kab Nahi Saha Aaj Uski Berukhi Ne Magar Dil Dukha Diya
ویسے تو کج ادائی کا دُکھ کب نہیں سہا
آج اُس کی بے رُخی نے مگر دِل دُکھا دیا
موسم مزاج تھا ، نہ زمانہ سرشت تھا
مَیں اب بھی سوچتی ہُوں وُہ کیسے بدل گیا؟
دُکھ سب کے مشترک تھے مگر حوصلے جُدا
کوئی بکھر گیا ۔۔۔۔ تو کوئی مُسکرا دیا
جُھوٹے تھے سارے پُھول جو پیڑوں میں آئے تھے
کوئی شگوفہ بھی تو ثمرور نہیں ہُوا
وُہ چوٹ کیا ہُوئی کہ جو آنسُو نہ بن سکی
وُہ دَرد کیا ہُوا کہ جو مصرعہ نہ بن سکا
ایسے بھی زخم تھے کہ چُھپاتے پھرتے ہیں ہم
درپیش تھا کِسی کے کرم کا معاملا
آلودۂ سُخن بھی نہ ہونے دیا اُسے
ایسا بھی دُکھ مِلا جو کِسی سے نہیں کہا
تیرا خیال کر کے مَیں خاموش ہو گئی
ورنہ زبانِ خلق سے کیا کیا نہیں سُنا
مَیں جانتی ہُوں ، میری بَھلائی اِسی میں تھی
لیکن یہ فیصلہ بھی کُچھ اچھا نہیں ہُوا
مَیں برگ برگ اُس کو نمو بخشتی رہی
وُہ شاخ شاخ میری جڑیں کاٹتا رہا
شاعرہ:پروین شاکر
Comments
Post a Comment