Bojh Aalam Ke Koi Tou Sanbhaly Mere Aur Hathaili Se Meri Dard Uthaly Mere
بوجھ آلام کے کوئی تو سنبھالے میرے
اور ہتھیلی سے مِری درد اُٹھا لے میرے
آپ سے بڑھ کے بھلا کون مسیحا ہے مِرا
اس دعا نے ہی بڑے کام نکالے میرے
وہ جو خود کو مِرا غمخوار کہا کرتا تھا
عیب اُس نے بھی سرِ عام اچھالے میرے
دشتِ پُرخار میں تنہا نہیں ہوتی اب میں
ہمسفر جب سے ہوئے پاؤں کے چھالے میرے
زندگی میں مِرے اشعار سند ہوں کہ نہ ہوں
پر مِرے بعد یہ ٹھہریں گے حوالے میرے
مجھ کو تاریکئ حالات کا اب خوف نہیں
ظلمتِ شب پہ مُسلط ہیں اُجالے میرے
میرا چہرہ ابھی کچھ دیر کُھلا رہنے دو
مجھ کو آئیں گے کنول دیکھنے والے میرے
ریحانہ کنول
Comments
Post a Comment