Hijar Ka Durrah Zara Saa Bhi Agar Lag Jaye Kaise Mumkin Hai Keh Bistar Se Kamar Lag Jaye
ہجر کا دُرّہ ذرا سا بھی اگر لگ جائے
کیسے ممکن ہے کہ بستر سے کمر لگ جائے
لے اُڑی بادِ سخن دل سے مرے رنج کا بیج
نخلِ افسردگی اب جانے کدھر لگ جائے
تُو مرے پاس نہیں پھر بھی میں کتنا خوش ہوں
کاش اک بار مجھے تیری نظر لگ جائے
کب بھرے گا جو لگا زخمِ محبت مجھ کو
ویسے لگتا تو نہیں پھر بھی اگر لگ جائے
تو کبھی ٹیک لگا مجھ سے کبھی باتیں کر
کیا خبر، کب مرے اندر کوئی در لگ جائے
چھپ رہا ہے وہی اخبار دوبارہ دل پر
دیکھ مجھ کو کہ کوئی تازہ خبر لگ جائے
مدتوں بعد اُگے نخلِ طرب سینے میں
اور پھر اس پہ اُداسی کا ثمر لگ جائے
بھاگتے بھاگتے تکتا ہوں وہیں مُڑ مُڑ کر
میرے پیچھے نہ مرا رختِ سفر لگ جائے
کس طرح دل میں جگہ دے دوں دوبارہ تجھ کو
کیسے ٹُوٹے ہوئے گملے میں شجر لگ جائے
یونہی اُڑتا پِھروں اپنی ہی فضا میں شارق
ایک ٹُوٹے تو وہیں دوسرا پر لگ جائے
سعید شارق
Saeed Shariq
Comments
Post a Comment