Zameen Mily Kahein Humain Kahein Tou Aasman Mily Dukhon Ki Dhoop Mein Shajar Koi Tou Meharban Mily
زمیں ملے کہیں ہمیں کہیں تو آسماں ملے
دکھوں کی دھوپ میں شجر کوئی تو مہرباں ملے
ترے فراق میں جیے، ترے فراق میں مرے
چلو یہ خواب ہی سہی وصال کا گماں ملے
الم کی شام آ گئی لو میرے نام آ گئی
چراغ لے کے راہ میں اے کاش مہرباں ملے
ابھی تلک فغاں ہوں میں، مثالِ داستاں ہوں میں
ملے تو ایک پل کبھی کہیں تو کارواں ملے
عجیب سے وہ رنگ تھے، سبھی کے ہاتھ سنگ تھے
ہمیں تو غیر بھی سبھی مثالِ دوستاں ملے
جبیں، جبیں نہیں ﺭہی، تو مہ جبیں نہیں ﺭہی
نہ لوگ وہ کہیں ملے نہ تجھ کو آستاں ملے
نجمہ شاہین کھوسہ
Comments
Post a Comment