Ameer e Shehar Ke Agay Bhi Tan Ke Chalty Hein Faqeer Kab Kisi Jah o Hasham Se Darte Hein
امیرِ شہر کے آگے بھی تن کے چلتے ہیں
فقیر کب کسی جاہ و حَشَم سے ڈرتے ہیں
قدیم وقت میں رکھتے تھے آدمی کا لحاظ
ہمارے وقت میں رُتبے کا پاس رکھتے ہیں
اُدھار رکھتے نہیں کچھ بھی دیر تک خود پر
بنا جو جس کا، اُسے نقد پیش کرتے ہیں
مجھے تُو کم نہ سمجھنا، میں صنفِ آہن ہوں
گِرانے والے مجھے خود کہاں سنبھلتے ہیں
رفیق لگتے ہیں جتنے سبھی منافق ہیں
ہماری آستیں میں ہیں، ہمی کو ڈستے ہیں
اگر ہو خون کسی حکمراں کے ہاتھوں سے
گواہ جائے وقوعہ سے ہی مکرتے ہیں
جو کاٹنا ہے وہی پیڑ گھر کی رونق ہے
مکین اس کے مرے گھر میں بھی چہکتے ہیں
تلاش مت کرو، ملنے کے اب نہیں واپس
گُزر گئے جو مسافر کہاں پلٹتے ہیں
وہی ہیں فارحہ مدہم یہاں جو غافل ہیں
شعور پا چکے جو دیر تک چمکتے ہیں
فارحہ نوید
Fareha Naveed
Comments
Post a Comment