Pehle Pehal Tou Us Se Bichadny Ka Khaof Tha Bichday Tou Lag Raha Hai Keh Sar Se Bala Taly
پہلے پہل تو اس سے بچھڑنے کا خوف تھا
بچھڑے تو لگ رہا ہے کہ سر سے بَلا ٹلی
جتنا سکون چاہیے تھا، اس سے بڑھ کے ہے
محسوس ہو رہا ہے کہ گھر سے بلا ٹلی
اس کے مطالبات تھے بڑھ کر بساط سے
اچھا ہوا فقیر کے در سے بلا ٹلی
تارہ بنایا تھا جسے، آنکھوں پہ بوجھ تھا
نظروں سے گر گیا تو نظر سے بلا ٹلی
اس ہو لگا کہ رونقیں سب اس کے دم سے ہیں
پنچھی جب اڑ گیا تو شجر سے بلا ٹلی
آتا نہ تھا نظر کوئی بھی دوسرا مجھے
ٹوٹا سحر تو میری نظر سے بلا ٹلی
چھایا بنائے رکھی تھی، پھل بھی دیا مگر
کہتے ہیں کاٹ کر مجھے گھر سے بلا ٹلی
شمائلہ فاروق
Shamaila Farooq
Comments
Post a Comment