Jab Arsa Intezar Se Bahir Nikal Gaya Yeh Dil Tha Ikhteyar Se Bahir Nikal Gaya
جب عرصہ انتظار سے باہر نکل گیا
یہ دل تھا اختیار سے باہر نکل گیا
Jab Arsa Intezar Se Bahir Nikal Gaya
Yeh Dil Tha Ikhteyar Se Bahir Nikal Gaya
میں اشک تھی، ہواؤں میں تحلیل ہو گئی
رستہ تھا وہ غبار سے باہر نکل گیا
اک جنگ تو اناؤں کی نہ ختم ہو سکی
کب جانے کون ہارسے باہر نکل گیا
رکھے ہوئے ہے گھاؤ سا اپنی لپیٹ میں
دل درد کے غبار سے باہر نکل گیا
کچھ دن رہا تھا ہجر کا عرصہ نگاہ میں
پھر یوں ہوا شمارسے باہر نکل گیا
میں نے کچھ اس طرح کا بھروسہ کیا کہ پھر
وہ شخص اعتبار سے باہر نکل گیا
چاہا کچھ ایسا ٹوٹ کے میں نے اُسے سحر
وہ شخص میرے پیار سے باہر نکل گیا
یاسمین سحر
Yasmeen Sahar
Comments
Post a Comment