Sokh Jate Hein Tou Talaab Kahan Jate Hein Meri Aankhon Se Tere Khuwab Kahan Jate Hein
سوکھ جاتے ہیں تو تالاب کہاں جاتے ہیں
مری آنکھوں سے ترے خواب کہاں جاتے ہیں
Sokh Jate Hein Tou Talaab Kahan Jate Hein
Meri Aankhon Se Tere Khuwab Kahan Jate Hein
ہر ملاقات پہ ملتے ہیں نئے زخم ہمیں
ہم ترے در سے شفایاب کہاں جاتے ہیں
میں تو بستر پہ تھکن اوڑھ کے سو جاتی ہوں
جانے تھک ہار کے اعصاب کہاں جاتے ہیں
میں کسی روز یہ پوچھوں گی سمندر سے ضرور
ڈوبنے والے تہہ ِ آب کہاں جاتے ہیں
تو زمانے سے تو ملتا ہے بڑی عزت سے
مجھ سے ملتے ہوئے آداب کہاں جاتے ہیں
ایک دن میں نے بھی جانا ہے وہیں آخر کار
جانتی ہوں مرے احباب کہاں جاتے ہیں
موسم ِ ہجر ہے برسات کا موسم سعدی
اور برسات میں سیلاب کہاں جاتے ہیں
سعدیہ صفدرسعدی
Sa'adia Safdar Sa'adi

Comments
Post a Comment