Aaj Kal Mujh Ko Muhabbat Se Woh Yun Daikhta Hai Jaise Yaqoob Hai Aur Kurty Peh Khoon Daikhta Hai
آج کل مجھ کو محبت سے وہ یوں دیکھتا ہے
جیسے یعقوب ہے اور کُرتے پہ خوں دیکھتا ہے
Aaj Kal Mujh Ko Muhabbat Se Woh Yun Daikhta Hai
Jaise Yaqoob Hai Aur Kurty Peh Khoon Daikhta Hai
تجھ کو تعبیر کی قیمت نہیں معلوم تو پھر
تو محبت کا کوئی خواب بھی کیوں دیکھتا ہے؟
اپنے ہونے کا یقیں خود کو دلانے کے لئے
کوئی دیوار پہ لکھ لکھ کے "میں ہوں" دیکھتا ہے
میرے چہرے پہ ،جو وحشت سے گھرا رہتا تھا
تیرے آنے سے امڈ آیا سکوں! ،دیکھتا ہے ؟
جسم کے نیل دکھا کر وہ مجھے کہتی ہے
رب ترا اچھا ہے پر کیسے کہوں دیکھتا ہے؟
ہول آتا ہے تری آنکھ کی وحشت سے مجھے
کوئی پہلے سے ڈرے شخص کو یوں دیکھتا ہے؟
شہر کا شہر بتاتا ہے مجھے میرا چلن
شاذو نادر ہی کوئی اپنے دروں دیکھتا ہے
پہلے تصویر بناتا ہے کسی قبر کی، پھر
لکھ کے پہلو میں وہ " اٹھ یار! میں ہوں " دیکھتا ہے
رات دروازے کو چنگھاڑتے سنتا ہے شفیق
ڈر کے اٹھتا ہے تو دیواروں پہ خوں دیکھتا ہے
نعمان شفیق
Nouman Shafiq

Comments
Post a Comment