Nigah Tishna Se Hairat Ka Bab Daikhtay Hein Basat Aab Peh Raqs Sarab Daikhtay Hein
نگاہ تشنہ سے حیرت کا باب دیکھتے ہیں
بساط آب پہ رقص سراب دیکھتے ہیں
Nigah Tishna Se Hairat Ka Bab Daikhtay Hein
Basat Aab Peh Raqs Sarab Daikhtay Hein
اکھڑتے خیموں پہ کیا قہر شام ٹوٹا ہے
لہو میں ڈوبا ہوا آفتاب دیکھتے ہیں
نہیں ہے قطرے کی اوقات بھی جنہیں حاصل
وہ کم نظر بھی سمندر کے خواب دیکھتے ہیں
انہیں تو وقت کی گردش اسیر کر بھی چکی
وہ اب گذشتہ زمانے کا خواب دیکھتے ہیں
ہمیں تو موج رواں بھی نظر نہیں آتی
وہ لوگ اور ہیں جو زیر آب دیکھتے ہیں
دیار شوق کی مٹی میں کیا گہر ہی نہیں
نمو کی رت کو بھی بے آب و تاب دیکھتے ہیں
سزا ملے گی ہمیں تو ضیا بدوشی کی
چراغ جاں پہ ہوا کا عتاب دیکھتے ہیں
ملا نہیں انہیں سیرابئ وجود کا لمس
یہ دشت صدیوں سے راہ سحاب دیکھتے ہیں
ارمان نجمی
Arman Najmi

Comments
Post a Comment