سُن اے غزالِ رعنا !! اب دل یہ چاہتا ہے
ہرروز اِک غزل ہم در مدحِ یار بھیجیں
دل یہ بھی چاہتا ہے ہِجراں کے موسموں میں
کچھ قربتوں کی یادیں ہم دُور پار بھیجیں
دل یہ بھی چاہتا ہے ، اُن پھول سے لبوں کو
دستِ صبا پہ رکھ کر، شبنم کے ہار بھیجیں
دل یہ بھی چاہتا ہے ، اُس جانِ شاعری کو!
کچھ شعر اپنے چُن کر ھم شاہکار بھیجیں
دل یہ بھی چاہتا ہے! سب بھید چاہتوں کے
ہر مصلحت بھُلا کر ، بے اختیار بھیجیں
دل یہ بھی چاہتا ہے پردے میں ہم سُخن کے
دیوانگی کی باتیں دیوانہ وار بھیجیں
دل یہ بھی چاہتا ہے ، جب بے اثر ہو سب کچھ
تُجھ کو بنا کے قاصِد ، اے یادِ یار بھیجیں
دل یہ بھی چاہتا ہے ، یا چُپ کا زہر پی لیں
یا دامن و گریباں ہم تار تار بھیجیں
دل جو بھی چاہتا ہےلیکن! فراز سوچو
ہم طوقِ آشنائی کیسے اُتار بھیجیں
احمد فراز
ہرروز اِک غزل ہم در مدحِ یار بھیجیں
دل یہ بھی چاہتا ہے ہِجراں کے موسموں میں
کچھ قربتوں کی یادیں ہم دُور پار بھیجیں
دل یہ بھی چاہتا ہے ، اُن پھول سے لبوں کو
دستِ صبا پہ رکھ کر، شبنم کے ہار بھیجیں
دل یہ بھی چاہتا ہے ، اُس جانِ شاعری کو!
کچھ شعر اپنے چُن کر ھم شاہکار بھیجیں
دل یہ بھی چاہتا ہے! سب بھید چاہتوں کے
ہر مصلحت بھُلا کر ، بے اختیار بھیجیں
دل یہ بھی چاہتا ہے پردے میں ہم سُخن کے
دیوانگی کی باتیں دیوانہ وار بھیجیں
دل یہ بھی چاہتا ہے ، جب بے اثر ہو سب کچھ
تُجھ کو بنا کے قاصِد ، اے یادِ یار بھیجیں
دل یہ بھی چاہتا ہے ، یا چُپ کا زہر پی لیں
یا دامن و گریباں ہم تار تار بھیجیں
دل جو بھی چاہتا ہےلیکن! فراز سوچو
ہم طوقِ آشنائی کیسے اُتار بھیجیں
احمد فراز
No comments:
Post a Comment