زیب النساء ایران کی ملکہ تھیں
چین کے بادشاہ نے ان کو بہت ہی مہنگا لاکھوں کروڑوں کا شیشہ بطور تحفہ پیش کیا
زیب النساء نے اپنی نوکرانی کو وہ شیشہ لانے کا کہا تو جیسے ہی نوکرانی وہ شیشہ لانے لگی تو اس کے ہاتھ سے وہ شیشہ چھوٹ کر نیچے گرا اور ٹوٹ گیا
نوکرانی سہم گئی کہ اب کیا بنے گا میرے ساتھ اتنا مہنگا شیشہ میں توڑ بیٹھی ہوں
میری خیر نہیں ملکہ مجھے نہیں چھوڑے گی اب
نوکرانی شاعرہ تھیں اس نے موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے فی البدیہ موضع تبع مصرعہ کہا کہ
از قضا آئینہ اے چینی شکست
Az Qaza Aaina Ae Cheeni Shikast
اے ملکہ یہ مہنگا شیشہ جو آپ کو چین کے بادشاہ نے بطور تحفہ پیش کیا تھا مجھ سے گِر کر ٹوٹ گیا ہے اس میں میری کوئی خطا نہیں تھی یہ تو مالک کی رضا تھی جو شیشہ ٹوٹ گیا
اب زیب النساء خود فارسی کی شاعرہ تھیں انھوں نے بجائے اس کے کہ اپنی نوکرانی سے لڑتی جھگڑتی اس کو بُرا بھلا کہتی اسی وقت اس نوکرانی کے کہے گئے مصرعے کے جواب میں فی البدیہ مصرعہ کہہ دیا کہ
خوب شُد سامانِ خود بینی شکست
Khoob Shud Saman e Khud-Beeni Shikast
یہ تو بہت اچھا ہوا ، جب میں اس آئینے کو دیکھتی ہوں تو میرے اندر اکڑ ، تکبر اور غرور پیدا ہوتا ہے کہ میں کتنی حسین ہوں
یہ تکبر غرور اور خودی کا سامان ٹوٹ گیا یہ بہت اچھا ہوا
اس کو توڑ کر تم نے بہت اچھا کیا
Zaib un Nisa was a princess, daughter of Aurangzeb.
ReplyDelete