Apne Seenay Se Lagaye Hoe Umeed Ki Laash,Mudaton Zeest Ko Na-Shaad Kia Hai Main Ne


شاعر ساحر لدھیانوی

اپنے سینے سے لگاۓ ہوۓ امید کی لاش
مدتوں زیست کو ناشاد کیا ہے میں نے
تونے تو ایک ہی صدمے سے کیا تھا دوچار
دل کو ہر طرح سے برباد کیا ہے میں نے
جب بھی راہوں میں نظر آۓ حریری ملبوس
سرد آہوں میں تجھے یاد کیا ہے میں نے
اور اب جب کہ میری روح کی پہنائی میں
ایک سنسان سی مغموم گھٹا چھائی ہے
تو دمکتے ہوۓ عارض کی شعائیں لے کر
گل شدہ شمعیں جلانے کو چلی آئی ہے
میرے محبوب یہ ہنگامہ تجدیدء وفا
میری افسردہ جوانی کے لیے راس نہیں
میں نے جو پھول چنے تھے تیرے قدموں کے لیے
ان کا دھندلا سا تصور بھی میرے پاس نہیں
ایک یخ بستہ اداسی ہے دل و جان پہ محیط
اب میری روح میں باقی ہے نہ امید نہ جوش
رہ گیا دب کے گراں بارء سلاسل کے تلے
میری درماندہ جوانی کی امنگوں کا خروش
ریگ زاروں میں بگولوں کے سوا کچھ بھی نہیں
سایہء ابرء گریزاں سے مجھے کیا لینا
بجھ چکے ہیں میرے سینے میں محبت کے کنول
اب تیرے حسنء پشیماں سے مجھے کیا لینا
تیرے عارض پہ یہ ڈھلکے ہوۓ سیمیں آنسو
میری افسردگیء غم کا مداوا تو نہیں
تیری محبوب نگاہوں کا پیامء جدید
اک تلافی ہی سہی . . . . . . میری تمنا تو نہیں
.
بوک تلخیاں سے ماخوذ


No comments:

Post a Comment

Featured post

Main tumko bhool jaonga lekin yeh shart hai Gulshan mein chal ke phool se khushbo juda karo

Main tumko bhool jaonga lekin yeh shart hai Gulshan mein chal ke phool se khushbo juda karo