Hazaron Khuwahishein Aisi Keh Har Khuwahish Pe Dam Nikle


 شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب
بک دیوان ۓ غالب صفحہ 335 336

انتخاب اجڑا دل

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارمان پھر بھی کم نکلے

ڈرے کیوں میرا قاتل کیا رہے گا اس کی گردن پر
وہ خون جو چشم ۓ تر سے عمر بھر یوں دم نکلے

نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آۓ ہیں لیکن
بہت بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے

بھرم کھل جاۓ ظالم تیرے قامت کی درازی کا
اگر اس طرۂ پر پیچ و خم نکلے

مگر لکھواۓ کوئی اس کو خط تو ہم سے لکھواۓ
ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے

ہوئی اس دور میں منسوب مجھ سے بادہ آشامی
پھر آیا وہ زمانہ جو جہاں میں جام ۓ جم نکلے

ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستۂ تیغ ۓ ستم نکلے

محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے

کہاں میخانہ کا دروازہ غالب اور کہاں واعظ؟
پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے


No comments:

Post a Comment

Featured post

Main tumko bhool jaonga lekin yeh shart hai Gulshan mein chal ke phool se khushbo juda karo

Main tumko bhool jaonga lekin yeh shart hai Gulshan mein chal ke phool se khushbo juda karo