Phir Wahi Naram Hawa,Wahi Aahista Safar Moj-e-Saba

شاعرہ
پروین شاکر
بک خوشبو صفحہ 143 144
انتخاب اجڑا دل
پھر وہی نرم ہوا
وہی آہستہ سفر موج ۓ صبا
گھر کے دروازے پے ننھی سی ہتھیلی رکھے منتظر ہے
کہ کسی سمت سے آواز کی خوشبو آۓ
سبز بیلوں کے خنک ساۓ سے کنگن کی کھنک
سرخ پھولوں کی سجل چھاؤں سے پائل کی چھنک
کوئی آواز بنام ۓ موسم
اور پھر موج ۓ ہوا
موجۂ خوشبو کی وہ البیلی سکھی
کچی عمروں کے نۓ جذبوں کی سرشاری سے پاگل برکھا
دھانی آنچل میں شفق ریز سلونا چہرہ
کاسنی چنری بدن بھیگا ہوا
پشت پر گیلے مگر آگ لگاتے گیسو
بھوری آنکھوں میں دمکتا ہوا گہرا کجرا
رقص کرتی ہوئی رم جھم کے مدھر تال کے زیرو بم پر
جھومتی نقرئی پازیب بجاتی ہوئی آنگن میں اتر آئی ہے
تھام کر ہاتھ یے کہتی ہے
میرے ساتھ چلو
لڑکیاں
شیشوں کے شفاف دریچوں پہ گراۓ ہوۓ سب پردوں کو
اپنے کمروں میں اکیلی بیٹھی
کیٹس کے اوڈس پڑھا کرتی ہیں
کتنا مصروف سکوں چہروں پہ چھایا ہے
مگر جھانک کے دیکھیں تو
آنکھوں کو نظر آۓ
کہ ہر موۓ بدن
گوش برساز ہے
ذہن بیتے ہوۓ موسم کی مہک ڈھوڈتا ہے
آنکھ کھوۓ ہوۓ خوابوں کا پتا چاہتی ہے
دل بڑے کرب سے
دروازوں سے ٹکراتے ہوۓ نرم رم جھم کے مدھر گیت کے
اس سر کو بلانے کی سعی کرتا ہے
جو گۓ لمحوں کی
بارش میں کہیں ڈوب گیا

No comments:

Post a Comment

Featured post

Main tumko bhool jaonga lekin yeh shart hai Gulshan mein chal ke phool se khushbo juda karo

Main tumko bhool jaonga lekin yeh shart hai Gulshan mein chal ke phool se khushbo juda karo