سیف الدین سیف، ذکی کاکوروی، ساحر لدھیانوی
*************************
ذکی کاکوروی
آج پھر ان سے ملاقات پہ رونا آیا
بھولی بسری ہوئی ہر بات پہ رونا آیا
غیر کے لطف و عنایات پہ رونا آیا
اور اپنوں کی شکایات پہ رونا آیا
عقل نے ترک تعلق کو غنیمت جانا
دل کو بدلے ہوئے حالات پہ رونا آیا
اہل دل نے کئے تعمیر حقیقت کے ستوں
اہل دنیا کو روایات پہ رونا آیا
ہم نہ سمجھے تھے کہ رسوائی الفت تو ہے
اے جنوں تیری خرافات پہ رونا آیا
وہ بھی دن تھے کہ بہت ناز تھا اپنے اوپر
آج خود اپنی ہی اوقات پہ رونا آیا
منع کرتے مگر اس طرح سے لازم بھی نہ تھا
آپ کے تلخ جوابات پہ رونا آیا
چھوڑیئے بھی مری قسمت میں لکھا تھا یہ بھی
آپ کو کیوں مرے حالات پہ رونا آیا
*************************
سیف الدین سیف
ہم کو تو گردش حالات پہ رونا آیا
رونے والے تجھے کس بات پہ رونا آیا
کیسے جیتے ہیں یہ کس طرح جیے جاتے ہیں
اہل دل کی بسر اوقات پہ رونا آیا
جی نہیں آپ سے کیا مجھ کو شکایت ہوگی
ہاں مجھے تلخئ حالات پہ رونا آیا
حسن مغرور کا یہ رنگ بھی دیکھا آخر
آخر ان کو بھی کسی بات پہ رونا آیا
کیسے مر مر کے گزاری ہے تمہیں کیا معلوم
رات بھر تاروں بھری رات پہ رونا آیا
کتنے بیتاب تھے رم جھم میں پئیں گے لیکن
آئی برسات تو برسات پہ رونا آیا
حسن نے اپنی جفاؤں پہ بہائے آنسو
عشق کو اپنی شکایات پہ رونا آیا
کتنے انجان ہیں کیا سادگی سے پوچھتے ہیں
کہیے کیا میری کسی بات پہ رونا آیا
اول اول تو بس ایک آہ نکل جاتی تھی
آخر آخر تو ملاقات پہ رونا آیا
سیف یہ دن تو قیامت کی طرح گزرا ہے
جانے کیا بات تھی ہر بات پہ رونا آیا
*************************
ساحر لدھیانوی
کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا آیا
بات نکلی تو ہر اک بات پہ رونا آیا
ہم تو سمجھے تھے کہ ہم بھول گئے ہیں ان کو
کیا ہوا آج یہ کس بات پہ رونا آیا
کس لیے جیتے ہیں ہم کس کے لیے جیتے ہیں
بارہا ایسے سوالات پہ رونا آیا
کون روتا ہے کسی اور کی خاطر اے دوست
سب کو اپنی ہی کسی بات پہ رونا آیا
بھولی بسری ہوئی ہر بات پہ رونا آیا
غیر کے لطف و عنایات پہ رونا آیا
اور اپنوں کی شکایات پہ رونا آیا
عقل نے ترک تعلق کو غنیمت جانا
دل کو بدلے ہوئے حالات پہ رونا آیا
اہل دل نے کئے تعمیر حقیقت کے ستوں
اہل دنیا کو روایات پہ رونا آیا
ہم نہ سمجھے تھے کہ رسوائی الفت تو ہے
اے جنوں تیری خرافات پہ رونا آیا
وہ بھی دن تھے کہ بہت ناز تھا اپنے اوپر
آج خود اپنی ہی اوقات پہ رونا آیا
منع کرتے مگر اس طرح سے لازم بھی نہ تھا
آپ کے تلخ جوابات پہ رونا آیا
چھوڑیئے بھی مری قسمت میں لکھا تھا یہ بھی
آپ کو کیوں مرے حالات پہ رونا آیا
*************************
سیف الدین سیف
ہم کو تو گردش حالات پہ رونا آیا
رونے والے تجھے کس بات پہ رونا آیا
کیسے جیتے ہیں یہ کس طرح جیے جاتے ہیں
اہل دل کی بسر اوقات پہ رونا آیا
جی نہیں آپ سے کیا مجھ کو شکایت ہوگی
ہاں مجھے تلخئ حالات پہ رونا آیا
حسن مغرور کا یہ رنگ بھی دیکھا آخر
آخر ان کو بھی کسی بات پہ رونا آیا
کیسے مر مر کے گزاری ہے تمہیں کیا معلوم
رات بھر تاروں بھری رات پہ رونا آیا
کتنے بیتاب تھے رم جھم میں پئیں گے لیکن
آئی برسات تو برسات پہ رونا آیا
حسن نے اپنی جفاؤں پہ بہائے آنسو
عشق کو اپنی شکایات پہ رونا آیا
کتنے انجان ہیں کیا سادگی سے پوچھتے ہیں
کہیے کیا میری کسی بات پہ رونا آیا
اول اول تو بس ایک آہ نکل جاتی تھی
آخر آخر تو ملاقات پہ رونا آیا
سیف یہ دن تو قیامت کی طرح گزرا ہے
جانے کیا بات تھی ہر بات پہ رونا آیا
*************************
ساحر لدھیانوی
کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا آیا
بات نکلی تو ہر اک بات پہ رونا آیا
ہم تو سمجھے تھے کہ ہم بھول گئے ہیں ان کو
کیا ہوا آج یہ کس بات پہ رونا آیا
کس لیے جیتے ہیں ہم کس کے لیے جیتے ہیں
بارہا ایسے سوالات پہ رونا آیا
کون روتا ہے کسی اور کی خاطر اے دوست
سب کو اپنی ہی کسی بات پہ رونا آیا
No comments:
Post a Comment