” ازالہ “ سے ایک غزل
دیواریں چھوٹی ہوتی تھیں لیکن پردہ ہوتا تھا
تالے کی ایجاد سے پہلے صرف بھروسا ہوتا تھا
کبھی کبھی آتی تھی پہلے وصل کی لذٌت اندر تک
بارش ترچھی پڑتی تھی تو کمرا گیلا ہوتا تھا
شکر کرو تم اس بستی میں بھی اسکول کُھلا ' ورنہ
مر جانے کے بعد کسی کا سپنا پورا ہوتا تھا
جب تک ماتھا چوم کے رخصت کرنے والی زندہ تھی
دروازے کے باہر تک بھی منہ میں لقمہ ہوتا تھا
بَھلے زمانے تھے جب شعر سہولت سے ہو جاتے تھے
نئے سخن کے نام پہ اظہر! میر کا چربہ ہوتا تھا
شاعر اظہر فراغ
کتاب ازالہ
صفحہ ١٠٦
دیواریں چھوٹی ہوتی تھیں لیکن پردہ ہوتا تھا
تالے کی ایجاد سے پہلے صرف بھروسا ہوتا تھا
کبھی کبھی آتی تھی پہلے وصل کی لذٌت اندر تک
بارش ترچھی پڑتی تھی تو کمرا گیلا ہوتا تھا
شکر کرو تم اس بستی میں بھی اسکول کُھلا ' ورنہ
مر جانے کے بعد کسی کا سپنا پورا ہوتا تھا
جب تک ماتھا چوم کے رخصت کرنے والی زندہ تھی
دروازے کے باہر تک بھی منہ میں لقمہ ہوتا تھا
بَھلے زمانے تھے جب شعر سہولت سے ہو جاتے تھے
نئے سخن کے نام پہ اظہر! میر کا چربہ ہوتا تھا
شاعر اظہر فراغ
کتاب ازالہ
صفحہ ١٠٦
No comments:
Post a Comment