Chupke Chupke Raat Din Aansoo Bahana Yaad Hai,Hum Ko Ab Tak Aashiqi Ka Woh Zamana Yaad Hai
”دیوانِ حسرت“ سے انتخاب
چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے
باہزاراں اضطراب و صد ہزاراں اشتیاق
تجھ سے وہ پہلے پہل دل لگانا یاد ہے
بار بار اُٹھنا اُسی جانب نگاہِ شوق کا
اور ترا غرفے سے وہ آنکھیں لڑانا یاد ہے
تجھ سے کچھ ملتے ہی وہ بے باک ہو جانا مرا
اور ترا دانتوں میں وہ اُنگلی دبانا یاد ہے
کھینچ لینا وہ مرا پردے کا کونا دفتًا
اور دوپٹے سے ترا وہ منہ چھپانا یاد ہے
جان کر سونا تجھے وہ قصدِ پابوسی مرا
اور ترا ٹھکرا کے سر وہ مسکرانا یاد ہے
تجھ کو جب تنہا کبھی پانا تو ازراہِ لحاظ
حالِ دل باتوں ہی باتوں میں جتانا یاد ہے
غیر کی نظروں سے بچ کر سب کی مرضی کے خلاف
وہ ترا چوری چھپے راتوں کو آنا یاد ہے
آ گیا گر وصل کی شب بھی کہیں ذکرِ فراق
وہ ترا رو رو کے مجھ کو رُلانا یاد ہے
دو پہر کی دُھوپ میں میرے بلانے کے لیے
وہ ترا کوٹھے پہ ننگے پاٶں آنا یاد ہے
آج تک نظروں میں ہے وہ صحبتِ راز و نیاز
اپنا جانا یاد ہے، تیرا بلانا یاد ہے
میٹھی میٹھی چھیڑ کی باتیں نرالی پیار کی
ذکر دشمن کا وہ باتوں میں اُڑانا یاد ہے
دیکھنا مجھ کو جو برگشتہ تو سونا ناز سے
جب منا لینا تو پھر خود رُوٹھ جانا یاد ہے
چوری چوری ہم سے تم آ کر ملے تھے جس جگہ
مدتیں گزریں پر اب تک وہ ٹھکانا یاد ہے
شوق میں مہندی کے وہ بے دست و پا ہونا ترا
اور مرا وہ چھیڑنا، وہ گدگدانا یاد ہے
باوجودِ ادٌعاۓ اِتٌقا حسرت مجھے
آج تک عہدِ ہوس کا وہ فسانہ یاد ہے
شاعر: حسرت موھانی
کتاب: دیوانِ حسرت
چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے
باہزاراں اضطراب و صد ہزاراں اشتیاق
تجھ سے وہ پہلے پہل دل لگانا یاد ہے
بار بار اُٹھنا اُسی جانب نگاہِ شوق کا
اور ترا غرفے سے وہ آنکھیں لڑانا یاد ہے
تجھ سے کچھ ملتے ہی وہ بے باک ہو جانا مرا
اور ترا دانتوں میں وہ اُنگلی دبانا یاد ہے
کھینچ لینا وہ مرا پردے کا کونا دفتًا
اور دوپٹے سے ترا وہ منہ چھپانا یاد ہے
جان کر سونا تجھے وہ قصدِ پابوسی مرا
اور ترا ٹھکرا کے سر وہ مسکرانا یاد ہے
تجھ کو جب تنہا کبھی پانا تو ازراہِ لحاظ
حالِ دل باتوں ہی باتوں میں جتانا یاد ہے
غیر کی نظروں سے بچ کر سب کی مرضی کے خلاف
وہ ترا چوری چھپے راتوں کو آنا یاد ہے
آ گیا گر وصل کی شب بھی کہیں ذکرِ فراق
وہ ترا رو رو کے مجھ کو رُلانا یاد ہے
دو پہر کی دُھوپ میں میرے بلانے کے لیے
وہ ترا کوٹھے پہ ننگے پاٶں آنا یاد ہے
آج تک نظروں میں ہے وہ صحبتِ راز و نیاز
اپنا جانا یاد ہے، تیرا بلانا یاد ہے
میٹھی میٹھی چھیڑ کی باتیں نرالی پیار کی
ذکر دشمن کا وہ باتوں میں اُڑانا یاد ہے
دیکھنا مجھ کو جو برگشتہ تو سونا ناز سے
جب منا لینا تو پھر خود رُوٹھ جانا یاد ہے
چوری چوری ہم سے تم آ کر ملے تھے جس جگہ
مدتیں گزریں پر اب تک وہ ٹھکانا یاد ہے
شوق میں مہندی کے وہ بے دست و پا ہونا ترا
اور مرا وہ چھیڑنا، وہ گدگدانا یاد ہے
باوجودِ ادٌعاۓ اِتٌقا حسرت مجھے
آج تک عہدِ ہوس کا وہ فسانہ یاد ہے
شاعر: حسرت موھانی
کتاب: دیوانِ حسرت
Comments
Post a Comment