Tafreeq Ne Jado Bhi Jagaya Hai Bala Ka
تفریق نے جادو بھی جگایا ہے بلا کا
خطرے میں ہے اے یار چمن مہرو وفا کا
توہین ہے درویش کا اس شہر میں جینا
ہو فاقہ کشی نام جہاں صبر و رضا کا
اب تک کا تفکرّ غم تقدیر کا چارہ
سینے میں پتہ رکھتے ہیں جو ارض و سما کا
جی چاہتا ہے اے مرے افکار کی مورت
ملبوس بنا دوں تجھے تاروں کی ردا کا
محفوظ رہیں میرے گلستاں کی فضائیں
ہو قتل گل و لالہ تقاضا ہے صبا کا
جلتے ہوئے دیکھے وہی معصوم شگوفے
تھا جن کو بھروسہ ترے دامن کی ہوا کا
کچھ سرد سی آہیں ہیں تو کچھ ڈوبتے آنسو
ساغر یہ صلہ تجھ کو ملا سوز نوا کا
ساغر صدیقی
Comments
Post a Comment