آسیب سا جیسے مرے اعصاب سے نکلا
یہ کون دبے پاؤں مرے خواب سے نکلا
جب جال مچھیرے نے سمیٹا ہے علی الصبح
ٹوٹا ہوا اک چاند بھی تالاب سے نکلا
سینے میں دبی چیخ بدن توڑ کے نکلی
یادوں کا دھواں روح کی محراب سے نکلا
مٹھی میں چھپائے ہوئے کچھ عکس، کئی راز
میں اس کی کہانی کے ہر اک باب سے نکلا
آواز مجھے دینے لگی تھی مری مٹی
میں خود کو سمیٹے ہوئے مہتاب سے نکلا
کچھ تہمت و دشنام، شکایات و سوالات
کیا کچھ نہ میاں حلقۂ احباب سے نکلا
No comments:
Post a Comment