سمجھ میں آ گیا کچھ کچھ مگر پُورا نہیں سمجھا
یہ جیون کیا تماشا تھا بہت دیکھا نہیں سمجھا
بِتا کے عُمر اُس کے سنگ کیا بس یہ گلہ میں نے
کہ تم نے ساتھ رہ کر بھی مُجھے اپنا نہیں سمجھا
ملی ہے دھوپ ہی اکثر کبھی چھاؤں نہیں آئی
ہمیں نادان تھے دیوار کا لِکّھا نہیں سمجھا
پٹک کے سر تیری چوکھٹ پہ آخر تھک گیا ہوں میں
صنَم سمجھا خُدا سمجھا تجھے کیا کیا نہیں سمجھا
بڑی چالاک ہے دُنیا سنبھل کے مِلنا غیروں سے
اسے سمجھایا تھا ارشد بہت روکا نہیں سمجھا
مرزا ارشد علی بیگ
Mirza Arshad Ali Baig
آڈبان پینسلوانیا
Audubon Pennsylvania
No comments:
Post a Comment