ترے خیال کے صدقے، یہ کیا مقام آیا
کبھی حیات کبھی موت کا پیام آیا
ترا خیال مرا سوزِ آرزوئے سحر
کوئی تو تھا شبِ فرقت جو دل کے کام آیا
کسی امید کا مارا دکھائی دیتا تھا
وہ خوش نصیب پرندہ جو زیرِ دام آیا
کسی کے خط میں کہیں ذکر تک نہ تھا اس کا
وہ اک پیامِ خصوصی جو دل کے نام آیا
نہ پوچھ کتنی حیات آفریں ہے راہِ وفا
سنا ہے، دل بھی اسی مرحلے میں کام آیا
No comments:
Post a Comment