Zahmat Kabhi Kabhi Tou Mushaqat Kabhi Kabhi



زحمت کبھی کبھی تو مشقت کبھی کبھی
لگتی ہے زندگی بھی مصیبت کبھی کبھی

پہلو میں جاگتی ہے محبت کبھی کبھی
آتی ہے ہاتھ درد کی دولت کبھی کبھی

اب تک ترے بغیر میں زندہ ہوں کس طرح
ہوتی ہے اپنے آپ پہ حیرت کبھی کبھی

اک پل کا جو وصال تھا ان ماہ و سال میں
دیتا ہے ہجر میں بھی رفاقت کبھی کبھی

چھیڑے وفا کا گیت کوئی نغمہ ساز جب
خود سے بھی ہونے لگتی ہے وحشت کبھی کبھی

اک رات ہجر کی ہے مسلسل ہمارے ساتھ
تم پر گزرتی ہو گی قیامت کبھی کبھی

سلگی ہے تیری یاد میں یہ روح رات دن
دینے لگی ہے لو یہ رفاقت کبھی کبھی

دنیا کے واسطے جو بہت بے شعور تھا
اس سے ملی ہے عشق کو وقعت کبھی کبھی

مجھ کو تری جفا کا تو شکوہ نہیں مگر
آتی ہے یوں ہی لب پہ شکایت کبھی کبھی

میں درد سے نجات کی طالب نہیں مگر
شاہینؔ کم ہو تھوڑی سی شدت کبھی کبھی


No comments:

Post a Comment

Featured post

Main tumko bhool jaonga lekin yeh shart hai Gulshan mein chal ke phool se khushbo juda karo

Main tumko bhool jaonga lekin yeh shart hai Gulshan mein chal ke phool se khushbo juda karo