Dil Mein Rehta Tha Jo Ab Jane Kahan Rehta Hai Haan Magar Ab Bhi Wahi Wird Zuban Rehta Hai
دِل میں رہتا تھا جو، اَب جانے کہاں رہتا ہے
ہاں مگَر اب بھی وہی وِردِ زَباں رہتا ہے
وہ نہیں آئے گا لیکن مُجھے دروازے پر
ایک مانُوس سی دَسْتَک کا گُماں رہتا ہے
تُم کسی طَور مِرے دِل کو بسائے رکھنا
اِس میں اِک عُمر سے سرمایۂ جاں رہتا ہے
ہم تِرے بعد سَنبھل سکتے ہیں شاید لیکن
آگ بُجھ جائے تو کچھ دیر دُھواں رہتا ہے
ایک دِیوانہ دُعا کرتا ہے سانسوں کے لیے
پھر وہ ہر سانس ہی مصروفِ فُغاں رہتا ہے
اُس نے پوچھا تھا مِرے گھر سے تو آواز آئی
جی وہ رہتا تھا یہاں، اب تو فلاں رہتا ہے
میں سناتا ہوں جہاں اُس پہ لکھی کوئی غزل
دیر تک تذکرۂ ماہ رُخاں رہتا ہے
سلیم کاوش
Comments
Post a Comment